فیس لیس سسٹم سے بیگیج کلیئرنس نظام درہم برہم

کراچی (کسٹم بلیٹن) ملک میں نافذ کردہ فیس لیس اسسمنٹ سسٹم بیگیج رولز سے لاعلم اپریزرز کے باعث بحران کا شکار ہوگیا ہے۔ قانونی طور پر مسافروں کو بیگیج کے تحت 1200 امریکی ڈالر مالیت تک اشیاءلانے کی اجازت حاصل ہے، تاہم فیس لیس سسٹم کے تحت اسسمنٹ کرنے والے امپورٹ اپریزرز کو بیگیج قوانین کا ادراک نہ ہونے کے سبب سینکڑوں کنٹینرز بندرگاہ پر کلیئرنس کے منتظر ہیں۔ اس صورتحال نے بیگیج سے وابستہ کاروباری حلقوں کو شدید معاشی دباو¿ میں مبتلا کردیا ہے۔ذرائع کے مطابق، بیگیج میں لائے جانے والے سامان کو امپورٹ تصور کرنا قانونی طور پر غلط ہے۔ مسافر اگر ایک ایل سی ڈی یا ایک فریج سے زائد سامان لائیں تو پہلے یونٹ پر رعایت اور باقی پر باقاعدہ ڈیوٹی عائد ہوتی ہے، جسے ادا کرکے سامان کلیئر کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، فیس لیس نظام میں موجود اپریزرز کی بیگیج قوانین سے ناواقفیت کے باعث یہ سادہ قانونی طریقہ کار بھی تاخیر کا شکار ہوچکا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ بیگیج کا نظام کوئی نیا عمل نہیں بلکہ عشروں سے قانونی طور پر جاری ہے۔ لیکن اب فیس لیس سسٹم کے نفاذ کے بعد یہ ذمہ داری ایسے افسران کو سونپی گئی ہے جنہیں بیگیج کی اسسمنٹ کی تربیت نہیں دی گئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پریونٹیو ڈپارٹمنٹ، جس کے اہلکار بیگیج کی جانچ اور ڈیوٹی اسسمنٹ کے ماہر ہوتے ہیں، کے ذریعے فیس لیس اپریزرز کو تربیت دی جاتی، تاکہ وہ رعایتی اور ڈیوٹی ایبل اشیاءمیں فرق سمجھ سکیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ فیلڈ میں ایگزامنیشن تو ہو جاتا ہے لیکن اسسمنٹ رپورٹ سسٹم میں اپ ڈیٹ ہی نہیں ہو رہی۔ جب اسسمنٹ نہیں ہوگی تو ڈیوٹی عائد نہ ہو سکے گی، اور ڈیوٹی کی ادائیگی کے بغیر سامان ریلیز ممکن نہیں۔ یہی وہ تکنیکی تعطل ہے جس نے بندرگاہ پر مال کی کلیئرنس روک دی ہے۔ کاروباری حلقوں نے اس بات پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ بیگیج کے تحت لائے گئے سامان کو اسمگلنگ کے زمرے میں ڈالنا قطعی طور پر ناانصافی ہے۔ واضح رہے کہ مسافر جب قانونی الاﺅنس سے زائد سامان پر مقررہ ڈیوٹی اور ٹیکسز ادا کرتا ہے، تو یہ عمل کسی بھی طور اسمگلنگ میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے برعکس، یہ عمل مکمل طور پر قانون کے دائرے میں آتا ہے اور دہائیوں سے یہ طریقہ سرکاری اجازت و دستاویزات کے ساتھ جاری ہے۔بیگیج سے منسلک ایجنٹس اور کلیئرنگ ایجنسیز کے مطابق اس وقت درجنوں کنٹینرز کراچی کی بندرگاہ پر رکے ہوئے ہیں، جس کے باعث نہ صرف مالکان کو ڈیمیجز، ڈیٹنشن اور اسٹوریج چارجز کا سامنا ہے بلکہ قومی خزانے میں جانے والی ریونیو بھی رکی ہوئی ہے۔تاجر برادری کا مطالبہ ہے کہ فیس لیس سسٹم کے ساتھ ساتھ بیگیج سے متعلق علیحدہ تربیت یافتہ ماہرین کی تعیناتی کی جائے تاکہ یہ فرق واضح رہے کہ کون سی اشیاءرعایت کے تحت آتی ہیں اور کون سی کمرشل زمرے میں آتی ہیں۔ بصورت دیگر بیگیج رولز اور فیس لیس سسٹم کا یہ تصادم تجارتی ماحول کو مزید متاثر کرے گا۔




