ایف بی آر نے کیش سیلز پر اخراجات پرمتنازع اقدام کا دفاع کیا

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی)فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے حالیہ متنازع اقدام کا دفاع کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ کیش سیلز پر کاروباری اخراجات کا 50 فیصد حصہ تسلیم نہ کرنے کا فیصلہ شفاف، دستاویزی معیشت کی طرف پیش رفت کا حصہ ہے۔ یہ قانون فنانس ایکٹ 2025 کے تحت متعارف کرایا گیا ہے اور یکم جولائی 2025 سے نافذ العمل ہے۔ایف بی آر کے مطابق، انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے سیکشن 24 کے تحت ایسے تمام کاروباری اخراجات، جن کا تعلق کیش سیلز سے ہو اور فی ٹرانزیکشن مالیت روپے 2 لاکھ سے تجاوز کرے، ان کا 50 فیصد حصہ ٹیکس گوشواروں میں ناقابل قبول قرار دیا جائے گا۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں ایف بی آر کے چیئرمین راشد محمود لنگڑیال نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے مو¿قف اختیار کیا کہ یہ قانون ایف بی آر کا بنایا ہوا نہیں، بلکہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی اور سینیٹ کی مالیاتی کمیٹی کی منظوری سے پاس ہوا۔ ہم صرف قانون پر عملدرآمد کے ذمہ دار ہیں۔جبکہ اس پالیسی کو کئی سینیٹرز نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔سینیٹر محسن عزیز نے اس اقدام کو “معاشی سرگرمیوں کے خلاف” قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس قسم کی پابندیاں تاجروں کے لیے مشکلات پیدا کریں گی، خاص طور پر ا±ن علاقوں میں جہاں ڈیجیٹل ادائیگی کا نظام مکمل طور پر نافذ نہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے بھی پالیسی کو “ظالمانہ” اور “چھوٹے تاجروں کے لیے نقصان دہ” قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ بینکنگ سہولیات سے محروم علاقوں میں کاروبار پہلے ہی مشکلات کا شکار ہے، اور ایسی قانون سازی مزید مسائل پیدا کرے گی۔چیئرمین ایف بی آر نے موقف اختیار کیا کہ یہ اقدام غیر دستاویزی معیشت کو کم کرنے اور ٹیکس کمپلائنس بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے۔اگر کوئی شخص یا ادارہ لاکھوں روپے کی سیلز کر رہا ہے تو ا±سے بینکنگ یا ڈیجیٹل ذرائع سے لین دین کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے جبکہ متعدد اسٹیک ہولڈرز اور سینیٹرز نے مطالبہ کیا ہے کہ اس قانون پر نظرثانی کی جائے اور آئندہ مالیاتی بل 2026-27 میں اس شق کو نرم یا ختم کیا جائے۔




