Anti-SmugglingBreaking NewsEham Khabar

انڈین گٹکااورچھالیہ کی اسمگلنگ ، کسٹمز اہلکاروں کی ملی بھگت سے قومی خزانے کو سالانہ 100 ارب روپے کا نقصان

کراچی(کسٹم بلیٹن) ملک بھر کی منڈیوں میں بھارتی گٹکا اورچھالیہ کی اسمگلنگ سے قومی خزانے کو سالانہ تقریباً 100 ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے، سروے رپورٹ کے مطابق چھالیہ مافیا کو کسٹمز کے اعلیٰ افسران کی پشت پناہی حاصل ہے جوچھالیہ کی درآمدمیں بلاجوازپیچیدگیاں پیداکرکے مضر صحت چھالیہ کی اسمگلنگ کو فروغ دے رہے ہیں، ذرائع کے مطابق ہر ماہ 650 سے زائد کنٹینر چھالیہ اسمگل ہو رہے ہیں جبکہ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق صرف 50 کنٹینر درآمد کئے جارہے ہیں، اس سنگین تضاد سے کسٹمز نظام میں بدعنوانی اور ناکامی واضح ہے اورچھالیہ درآمدکرنے والے کاکہناہے کہ چھالیہ کی اسمگلنگ میں مبینہ طورپرکروڑوں روپے کی لین دین شامل ہے ،انفورسمنٹ کلکٹریٹ کراچی کے سابق کسٹمزآفیسرنے نام نہ ظاہرکرنے کی شرط پر بتایاکہ 2019میں چھالیہ کی اسمگلنگ کو جاری رکھنے کے لئے 20کروڑسے زائد ماہانہ رشوت لی جاتی تھی اس سے آپ اندزہ کرسکتے ہیں کہ اب رشوت کی رقم کیاہوسکتی ہے کیونکہ 2019میں ڈالر150روپے کاتھااوراب 283روپے ہے، رپورٹ کے مطابق کراچی میں 14 بڑی میٹھی سپاری فیکٹریاں اور تقریباً 200 چھوٹی فیکٹریاں کام کر رہی ہیں جن میں سے صرف ایک فیکٹری رجسٹرڈ ہے اور وہ بھی کئی ماہ سے صفر سیلز ٹیکس ریٹرن جمع کرا رہی ہے، جبکہ باقی تمام غیر رجسٹرڈ فیکٹریاں کھلے عام کام کر رہی ہیں اور ان کے تیار کردہ برانڈز پورے شہر میں فروخت ہو رہے ہیں، ماہرین کے مطابق اگر ان فیکٹریوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے تو حکومت کو سالانہ 20 سے 30 ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہوسکتا ہے، کراچی میں چھالیہ کی کھپت کے حوالے سے سروے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ شہر میں تقریباً تین لاکھ پان کی دکانیں، کیبن، ٹھیلے اور ریڑھیاں ہیں جن میں روزانہ تین سے پانچ ڈبے سپاری اور گٹکا فروخت ہوتے ہیں، ضلع وسطی میں 70 ہزار جبکہ ضلع غربی میں 80 ہزار کے قریب پان کی دکانیں کام کر رہی ہیں اور دیگر اضلاع میں بھی تقریباً ڈیڑھ لاکھ سے زائد دکانیں موجود ہیں، فیلڈ سروے کے مطابق کراچی میں روزانہ دو لاکھ کلوگرام چھالیہ صرف پان کے استعمال میں صرف ہورہی ہے جو 214 کنٹینر ماہانہ کے برابر ہے جبکہ میٹھی سپاری اور گٹکا فیکٹریوں میں استعمال ہونے والی مقدار اس کے علاوہ ہے، رپورٹ میں بتایا گیا کہ صرف گٹکا اور ماوا استعمال کرنے والے افراد کی تعداد کراچی میں پانچ لاکھ سے زائد ہے جو روزانہ تین تین پیکٹ استعمال کرتے ہیں، جس سے مزید 120 کنٹینر ماہانہ کی کھپت ظاہر ہوتی ہے، اس طرح کراچی میں مجموعی طور پر 450 کنٹینر ماہانہ چھالیہ استعمال ہورہی ہے جبکہ پورے ملک میں یہ تعداد 650 کنٹینر سے تجاوز کرچکی ہے، ذرائع کے مطابق اس بڑے پیمانے پر اسمگلنگ کسٹمز انفورسمنٹ کے علم میں ہے مگر کارروائی نہ ہونے کے برابر ہے، حتیٰ کہ ضبط شدہ مضر صحت چھالیہ بھی نیلامی کے ذریعے دوبارہ مارکیٹ میں پہنچا دی جاتی ہے حالانکہ قانون کے مطابق اسے تلف کیا جانا چاہئے، کسٹمز کے سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ درآمدات میں اضافہ ہوا ہے اور چھالیہ کی درآمدی مقدار2022-23 میں 21 لاکھ کلوگرام سے بڑھ کر2024-25 میں 1 کروڑ 80 لاکھ کلوگرام ہوگئی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ماضی میں اس طلب کو پورا کیسے کیا جا رہا تھا، رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ فی کنٹینر تقریباً 91 لاکھ روپے کے ڈیوٹی و ٹیکسز بنتے ہیں اور جب ماہانہ 650 کنٹینر اسمگل ہوں تو حکومت کو 6 ارب روپے ماہانہ اور سالانہ 100 ارب روپے سے زائد نقصان ہوتا ہے، جس میں 72 ارب روپے براہ راست اسمگلنگ سے جبکہ 30 ارب روپے سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کی مد میں ضائع ہو رہے ہیں، ماہرین صحت کے مطابق غیر معیاری اور مضر صحت چھالیہ، گٹکا اور ماوا منہ کے سرطان سمیت دیگر مہلک بیماریوں کا باعث بن رہے ہیں، عالمی ادارہ صحت نے چھالیہ کو سرطان پیدا کرنے والا کیمیکل قرار دیا ہے جبکہ کراچی کے اسپتالوں میں روزانہ منہ کے کینسر اور پری کینسر کیسز میں اضافہ ہورہا ہے، ماہرین نے کہا کہ یہ خطرناک رجحان حکومت اور اداروں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے، جب تین لاکھ پان کی دکانیں اور سینکڑوں غیر رجسٹرڈ سپاری فیکٹریاں کھلے عام کام کر رہی ہوں اور کسٹمز ادارہ خاموش تماشائی بنا ہو تو یہ بدعنوانی نہیں بلکہ قومی جرم کے مترادف ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button