Breaking NewsEham Khabar

کراچی کا انفراسٹرکچر تباہ حال، کاروباری برادری اربوں روپے ٹیکس کے باوجود مشکلات کا شکارہے ، خرم اعجاز

کراچی (کسٹم بلیٹن) فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے برسرِ اقتدار گروپ بزنس مین پینل کے سیکریٹری جنرل اور سابق نائب صدر ایف پی سی سی آئی خرم اعجاز نے کہا ہے کہ ملک بھر کی کاروباری برادری کراچی کے انفراسٹرکچر کے لئے اربوں روپے ٹیکس دیتی ہے لیکن اس کے باوجود پورٹ سٹی کا انفراسٹرکچر تباہ حال ہے اور ایک دن کی بارش بھی برداشت نہیں کر پاتا، انہوں نے انکشاف کیا کہ فیصل آباد، لاہور، اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ اور اندرون سندھ کے تاجر و صنعت کار جب بھی امپورٹ یا ایکسپورٹ کرتے ہیں تو کراچی کے انفراسٹرکچر کے لئے اربوں روپے کا ٹیکس ادا کرتے ہیں لیکن شہر قائد کے بوسیدہ انفراسٹرکچر کے باعث انہیں بھاری مالی نقصانات اٹھانے پڑتے ہیں، بارش کے دوران پورٹ کے راستے، سڑکیں اور نکاسی آب کا نظام بیٹھ جانے سے ٹریفک جام نے پورے لاجسٹک چین کو مفلوج کردیا جس کے نتیجے میں امپورٹرز، ایکسپورٹرز اور ٹرانسپورٹرز کو ڈیمرج اور لیٹ پے منٹ کی صورت میں اضافی اخراجات برداشت کرنا پڑے، ایف بی آر ڈیٹا کے مطابق سندھ حکومت نے صرف مالی سال 2024-25 میں 160 ارب روپے انفراسٹرکچر سیس کی مد میں وصول کیے جو پانچ سال میں800 ارب روپے بنتے ہیں، اس کے علاوہ سندھ ایکسائز کا موٹر ٹیکس اور کے ایم سی کا میونسپل ٹیکس بھی الگ سے وصول ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود کراچی کی صورتحال یہ ہے کہ بارش کے ایک دن میں ہی نظام درہم برہم ہوجاتا ہے، خرم اعجاز نے کہا کہ سندھ حکومت کو یہ سیس کسٹمز کے کمپیوٹرائزڈ سسٹم کے ذریعے بلا رکاوٹ روزانہ کی بنیاد پر ملتا ہے جس پر کوئی اضافی محنت یا خرچ نہیں کرنا پڑتا، سالانہ 160 ارب روپے کی وصولی کا مطلب ہے ماہانہ13ارب33کروڑ روپے، روزانہ43 کروڑ80 لاکھ روپے جبکہ ورکنگ ڈیز کے حساب سے53کروڑ 30 لاکھ روپے یعنی روزانہ تقریبا 50کروڑ روپے کی خطیر آمدنی سندھ حکومت کے خزانے میں جمع ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود شہر قائد کا انفراسٹرکچر بدترین صورتحال کا شکار ہے، انہوں نے مطالبہ کیا کہ انفراسٹرکچر سیس کی آمدنی میں سے ایک معقول اور مقررہ حصہ لازمی طور پر کراچی بندرگاہ اور اس کے اطراف کی سڑکوں اور نکاسی آب کے نظام پر خرچ کیا جائے جبکہ باقی رقم صوبے کے دیگر منصوبوں پر صرف ہو لیکن یہ شرط رکھی جائے کہ وہ صرف انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ پر خرچ ہوں، ہر سال تفصیلی رپورٹ شائع کی جائے جس میں یہ واضح ہو کہ کتنی وصولی ہوئی اور کن منصوبوں پر کتنی رقم خرچ کی گئی، خرم اعجاز نے کہا کہ کاروباری برادری حکومت سے کسی رعایت یا استثنیٰ کی طلب گار نہیں بلکہ صرف یہ چاہتی ہے کہ انفراسٹرکچر کے نام پر وصول ہونے والی رقوم حقیقت میں اسی مقصد پر خرچ ہوں تاکہ پاکستان کی تجارت اور معیشت کو سہولت مل سکے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button